پتھروں کے شہر میں نفاست نہیں ملتی
کبھی سنگدل لوگوں سے محبت نہیں ملتی
جنہیں تو نہیں ملتا اُنہیں ملتی تیری ہے عبادت
جنہیں ملتا ہے تو اُنہیں تیری عبادت نہیں ملتی
ضروری نہیں تو چاہے جسے وہ بھی تجھے چاہے
زمانے میں کسی سے کسی عادت نہیں ملتی
جنموں سے تیری تلاش کا سلسلہ ہے مسلسل
کسی سے تیری صورت کسی صیرت نہیں ملتی
یوں تو ملتا ہے ہر روز مجھ سے مسکرا کہ وہ ہمیشہ
بس ایک ہم ہی کو اُس کی زرا سی قربت نہیں ملتی
نہ ڈر اِس قدر تو بدایمانیوں سے اے مسعود
یہاں بدنام ہوئے کبھی کسی کو شہرت نہیں ملتی