پتھر کو ہم کلام کِیا اور چل پڑا
آغازِ اختتام کِیا اور چل پڑا
لے دے کے ایک دل ہی بچا تھا مرا رفیق
وہ بھی کسی کے نام کِیا اور چل پڑا
اِک بادشاہ کے لیے بھیجا گیا میں عشق
اِک بادشہ غلام کِیا اور چل پڑا
وہ خوش نصیب شخص جو لشکر میں ایک تھا
اُس شخص کو سلام کِیا اور چل پڑا
دِل سے نگاہِ ناز اُٹھی اِس طرح کہ بس
مَیں نے سخن تمام کِیا اور چل پڑا
دَر پیش تھا سفر کسی صحرا میں شام کا
شبیر نے قیام کِیا اور چل پڑا