پرانے کاغذوں میں آج وہ کاغذ ملا ہے
جس پہ تیرا نام میرے لہو سے لکھا ہے
تمہیں کچھ خبر اس کی ہے یا نہیں ہے
مجھے عکس خود میں تمہارا دکھا ہے
کہ جب آئینے سے نگاہیں ملی ہیں
مجھے آئینے نے یہی بس کہا ہے
جو مجھ میں دکھائی دینے لگا ہے
بتا کہ مجسم وہ پیکر کہاں ہے
بہت خوبب عظمٰی کہانی سنائی
نہ آغاز جس کا نہ آخر پتہ ہے