خوشی خوشی پردیس آنے والے
اگر تو نے دیس میں
بارش کے بعد
دھرتی ماں کی آغوش سے اٹھنے والی
سندی سندی، دھیمی دھیمی
خوشبو کو محسوس کیا ہو گا
تو اب پردیس میں جب بھی
کوئی آوارہ بادل برسا ہوگا
تو تنہائی میں تو بھی رودیا ہوگا
اور خیالوں ہی خیالوں میں
خوشبو کو محسوس کیا ہوگا
پردیس سے دیس میں پہنچا ہوگا
اپنوں کو سوچا ہوگا
اور اداس ہوا ہوگا
دیس کو لوٹ کے آنے کو
تیرا جی چاہا ہوگا
مگر ہر بار
والدین کی بیماری کے اخراجات نے
بچو ں کی تعلیم اور ان کی خواہشات نے
جوانی کی دہلیز پار کرتی
جہیز کے انتظار میں بیٹھی
بہن کی صورت نے
یعنی کے فکرِ معاش نے
دیس کی جانب اٹھتے تیرے قدموں کو روکا ہوگا
نہ صرف تیرے بلکہ
تیری بیوی کے ارمانوں کو کچلا ہوگا
کچھ دیر تونے کچھ سوچا ہو گا
تصور میں تونے
تجھ سے امید بندھی نظروں کو دیکھا ہوگا
اور پھر سے تلاشِ معاش میں
اپنے کام کی جانب نکل پڑا ہوگا