رو رہا ہوں کہ رونے کی حسرت نہیں گئی
پردیس میں بھی دل کی یہ عادت نہیں گئی
سب سے چھپا کے لا یا تھا جس کو وطن سے میں
دل سے اداسیوں کی وہ دولت نہیں گئی
غرق شراب ہو کے بھی دیکھا ہے بار بار
دل سے اے یار تیری محبت نہیں گئی
چاروں طرف ہیں حسن کے منظر سجے ہوئے
پر کیا کریں کہ دل سے وہ صورت نہیں گئی
مٹی وطن کی خاک شفا ہے مرے لئے
دل سے سدید اس کی محبت نہیں گئی