پروانہ شمع سے جلے الزام تمازتِ آفتاب پہ ہو
عشقِ وفا کہاں جو چاہتِ محبوب وصلِ بیتاب پہ ہو
زندگی کو تماشا نہ بناؤ تماشا خود زندگی ہو جائے
درد کا چیخِ مسکن خوشیِ القاب پہ ہو
تختِ عرش کو دوام رہتا جو ہوا میں ہے
فرشِ محل نہیں پائیدار قائم جو بنیادِ آب پہ ہو
گل گلزار سے تو مہک بہار سے ہے وابستہ
اگتا ہے صرف خار ہی بستا جو سراب پہ ہو
شاہِ زماں سے دل گرفتہ رہتے جو معظمِ ہمراز
دلگیری فقیر میں سدا رنگ تابانی مہتاب پہ ہو