پر دے کے مجھ سے قوتِ پرواز تو نہ چھین
سب چھین لے مگر مرا انداز تو نہ چھین
گر چھیننا ہے تو مرے ہوش و حواس چھین
دل جھومے جس کی لے پہ وہی ساز تو نہ چھین
خود کھو کے مجھ کو کہتا پھرا وہ ہر ایک سے
ظالم زمانے مجھ سے مری ناز تو نہ چھین
اے وقت بے رحم ہی سہی تو ، مگر ٹھہر
یوں مجھ سے میرا مونس و دمساز تو نہ چھین
ظاہر نہیں کسی پہ ابھی میرے دل کی بات
دل میں سما کے دل کا مرے راز تو نہ چھین
انجام سوچ لوں دے اجازت مجھے ذرا
مجھ سے مری کہانی کا آغاز تو نہ چھین
پیاری ہے زندگی مجھے اے موت رک ذرا
اس عمر کو سمجھ کے دغا باز تو نہ چھین
ہمراز تھا کبھی ، مرا دشمن ہے آج تو
دشمن سہی مگر مرا ہمراز تو نہ چھین
پہچانتے ہیں سب مری آواز سے مجھے
اے وقت مجھ سے تو مری آواز تو نہ چھین