پشیمانیوں میں ڈوبا مقدر سنوارا نہیں گیا
اک بار جو ملے تھے دوبارہ نہیں گیا
جو پیاس تھی لبوں پہ پہنچی نہ روح تک
سمندر تھا بے کراں مگر کنارا نہیں گیا
تاریکیوں کے سائے میں تھا شام کا منظر
جلتی ہوئی اس رات کا ستارہ نہیں گیا
ہم تیرے گھر کے سامنے ٹہرے تھے رات بھر
آنکھوں میں رتجگے کا استعارہ نہیں گیا
عمر تمام کر دی داستاں سناتے سناتے
رخصت ہوئے تو زباں سے پکارا نہیں گیا