پلکوں پر گزری شام
یاد کا نشتر
ہر صبح راہ کا پتھر
سورج بینائ کا منبع
آنکھیں کھو بیٹھا
ہر آشا زخمی زخمی
ہر نغمہ
عزاءلی اسرافیلی
خون میں بھیگا آنچل
گنگا کا
ہر رستہ چپ کا قیدی
دریا کنارے منہ دیکھے ہیں
بے آب ندی میں
گلاب کی کاشیں
پانی پانی
ہونٹ
سانپوں کے گھر
پلکوں کی شام
ہر شام پر بھاری ہے
ڈرتا ہے اس سے
حشر کا منظر