پلکوں کی چھاؤں میں مجھکو تو عجب بات ملی
سایہ دھوپ سےاور برستی ہوئی برسات ملی
کل تلک ہنستی کھلتی ہوئی معصوم سی کلی
کانٹوں میں گری پڑی ہوئی برباد ملی
چلنےکولوگ چل بسے نہ فرق پڑا کوئی
جہاں پہلےسےبھی کہیں آباد ملی
عشق پہ لکھی گئی ہزارہاداستانوں میں
اپنی داستاں پہ بھی لکھی گئی کتاب ملی
پروانہ جس دردکوسہتےہوئےجان سےگزرگیا
شمع اسی دردمیں جلتی ہوئی بدحال ملی
کبھی دردوآہیں کبھی خوشیوں کی بھی بہاریں
ذندگی خوشی و غم میں لپٹی ہوئی سوغات ملی
نوک زباں تک جو لا نہ سکے تمام عمر
عائش کولکھی ہوئی تیری آنکھوں میں وہی بات ملی