پچھلی رات کی نرم چاندنی ، شبنم کی نرم خنکی سے رچا ہے
یوں کہنے کو اس کا تبسم برف صفت ہے، شعلہ نما ہے
وقت کو ماہ و سال کی زنجیر وں میں پکڑ کر کیا پایا ہے
وقت تو ماہ و سال کی زنجیروں میں اور بھی تیز بڑھا ہے
ایک معصوم سے پیار کا تحفہ گھر کے آنگن میں پایاتھا
اس کو غم کے پاگل پن میں کوٹھے کوٹھے بانٹ دیا ہے
آنسو تارے رنگ گلاب سب ہی پردیس چلے جاتے ہیں
آخر آخر تنہائی ہے، کس نے کس کا ساتھ دیا ہے
نظم غزل افسانہ گیت اک تیرا ہی غم تھا جس کو ہم نے
کیساکیسا نام دیاہے، کیسے کیسے بانٹ لیا ہے
آہوں کے بادل کیوں دل میں بن برسے ہی لوٹ گئے
اب کے برس ساون کا مہینہ کیسا پیاسا پیا سا گیا ہے
پھول سی ہر تصویر میں ذہن کی دیواروں سے اتر چکا ہوں
پھر کیوں دل میں کانٹا سا رہ رہ کر چبھتا رہتا ہے
مجبوری تھی صبر کیا ہے، پاؤں کو توڑ کر بیٹھے رہے ہیں
نگری نگری دیکھ چکے ہیں دوراہے جھانک لیا ہے
ان آنکھوں کا متوالا پن، ان ہو نٹوں کی جنبش کم کم
نشہ ہے جو ڈول رہا ہے، جادو ہے جو بول رہا ہے
مجھ کو ان سچی باتوں سے اپنے جھوٹ بہت پیارے ہیں
جن سچی باتوں سے صدیوں انسانوں کا خون بہا ہے
یارو سو نا چاندی بو کر، سو نا چاندی کاٹو جَاؤ
ہم نے آنسو کی کھیتی کی نین نگر آباد کیا ہے
بدرؔ تمہاری فکر سخن پر ایک علامہ ہنس کر بولے
یہ لڑکا نو عمر پرندہ اونچی اڑان سیکھ رہا ہے