جنوں کی راہ میں نکلی ہوں
انجام سے بے خبر
راستہ بھی پر خطر
گہری کھائیاں
دہشت کی ہر
سمت پرچھائیاں
کالی راتیں
ادھورے قصے
ادھوری باتیں
گھپ اندھیرا
جگنو نہ سویرا
نہ چھاؤں الفت کی
نہ کوئی محبوب میرا
یہ دل گھائل ، گھائل
پھر بھی امید کا قائل
روپ نہ کوئی دھوپ
ہر طرف گہرا سکوت
دکھائی دیتا لمبا سفر
نہیں کوئی ہمدم
نہ سایہ نہ ہی
کوئی شجر
جل رہی ہوں
ہر لمحہ ہر پہر
نہیں پتہ یہ کونسا
ھے نگر ؟
چلنے لگی کس ڈگر
آ گئی ہوں کس
جہان میں۔
پڑ گئی ہوں کس
امتحان میں۔
شاہین!کیسا ہے یہ سفر
کرنا پڑتا بس صبر،بس صبر
اے دل نہ کسی آزمائش
سے ڈر ۔
نہ سہم ، بن بہادر،
جان لو یہ کونسی ہے راہ
حاصل کرنی ہےاک
پتھر دل کی چاہ
یہ دیوانگی کی ہے راہ
ہاں
یہ دیوانگی کی ہے راہ