تقدیر مجھ پہ مسکرائی تھی
سر راہ مجھ سے تُو ٹکرائی تھی
میری خاطر کُل دنیا ٹھکرائی تھی
پھیلی جب تیرے عشق کی کہانی
لوگوں نے سمجھانے کی ٹھانی
تُو نے لیکن بات نہ مانی
میں یوں تو سودائی تھا
کچھ کچھ ہرجائی تھا
شاید باعثِ رسوائی تھا
جیون کے غم و آزار نے
ایک بیکل دلِ بیمار نے
اور اُس پر تیرے پیار نے
چین میرا سب چھین لیا
میری نیند کو بھی لُوٹ لیا
اپنی ہستی کو تیرے نام کیا
میں نے تو اعتبار کیا تھا
دل کو بے قرار کیا تھا
آخر تُو نے پیار کیا تھا
خود کو میں نے ہار دیا
اپنا جیون تجھ پہ وار دیا
دل تجھ کو سو سو بار دیا
پھر مجھ سے تُو نے منہ کیوں موڑا
خود ہی اپنے عہد کو توڑا
کہیں نیا پھر کوئی ناطہ جوڑا
اپنا پچھلا ناطہ توڑ دیا
نگر سپنوں کا اجاڑ دیا
اور مجھ کو تنہا چھوڑ دیا
جو کبھی میری تھی دیوانی ہوئی
پھر ایسے یوں بیگانی ہوئی
جیسے بھولی ہوئی کہانی ہوئی
ہاں اِک یاد اب بھی باقی ہے
اور آنکھوں میں کچھ نمی بھی ہے
اِک خلش دل میں جاگی ہے
مجھ کو تیری بیوفائی کا غم نہیں
اپنی بھی رسوائی کا غم نہیں
کسی جگ ہنسائی کا غم نہیں
مجھے دکھ نہیں وفا کے لٹنے کا
آرزو جھلسنے کا تمنا کے لٹنے کا
ماتم ہے فقط انا کے لٹنے کا
درگذر میری غربت نہ کی ہوتی
گر تُو نے بغاوت نہ کی ہوتی
میں نے تجھ سے محبت نہ کی ہوتی
سکتہءجاں میں رعنا آتا نہیں غصہ
یہ ہے گئے دنوں کا قصہ
زخم ہیں زندگی کا حصہ