میں آزمائش کے کس مقام پر کھڑی ہوں
جانے دوں تو جان جائے، روکوں تو ایمان
وہ بے خبر اپنی دنیا میں مگھن کہاں جا رہا ہے
میرا دل ٹکرے ٹکرے پھر بھی ہو رہا ہے مہربان
کیا وہ مجبور ہے جو اب بھی کچھ بولتا نہیں مجھے
محبت جب دنوں نے کی پھر میرے کیوں ہے امحتان
آسمان کو دیکھ کر آج خدا کو پکارا بہت میں نے
جب سونپا تھا ُاسے پھر دل کیوں ہے پریشان
نہیں ہے تمناء مجھے اس جہاں کی لیکن
بس کی خاطر مچل رہے ہیں ارمان
دعائیں ، وظفیے ، سب کر لیے ُاسے پانے کے لیے
پھر بھی کیوں ادھوری ہے اپنی داستان