پھر تم بات کرتی ہو تم نے لاکھوں کو جانا ہے
Poet: سعدیہ اعجاز By: Sadia Ijaz Hussain (IH), Lahore, University of Educationکبھی آنکھوں کے چشموں سے ساغر کو پیا ہے ؟
کبھی الفاظ کے خنجر سے کسی کا خون کیا ہے ؟
کبھی خوش حال چہروں میں چھپے درد کو جانا ہے ؟
پھر تم بات کرتی ہو تم نے لاکھوں کو جانا ہے ۔
کبھی دل کے سیراب راستوں سے دھڑکن کو جانا ہے ؟
کبھی خاموشی کے پیچھے چھپی آہٹ کو جانا ہے ؟
کبھی ان کہی باتوں میں تم نے فلسفے کو جانا ہے ؟
پھر تم بات کرتی ہو تم نے لاکھوں کو جانا ہے ۔
کبھی بھوکے بچوں کے گھروں میں جھانکا ہے ؟
کبھی سفید پوشی کے پیچھے راز جانا ہے ؟
کبھی ترستے لمحوں میں رشتوں کو جانا ہے ؟
پھر تم بات کرتی ہو تم نے لاکھوں کو جانا ہے ۔
کبھی خود میں چھپے اپنے راز کو جانا ہے ؟
کبھی قدرت کے کے کھلے پھولوں کے پتوں کو جانا ہے ؟
کبھی کانٹے میں چھپی درد کی آہ کو جانا ہے ؟
پھر تم بات کرتی ہو تم نے لاکھوں کو جانا ہے
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم







