کبھی آنکھوں کے چشموں سے ساغر کو پیا ہے ؟
کبھی الفاظ کے خنجر سے کسی کا خون کیا ہے ؟
کبھی خوش حال چہروں میں چھپے درد کو جانا ہے ؟
پھر تم بات کرتی ہو تم نے لاکھوں کو جانا ہے ۔
کبھی دل کے سیراب راستوں سے دھڑکن کو جانا ہے ؟
کبھی خاموشی کے پیچھے چھپی آہٹ کو جانا ہے ؟
کبھی ان کہی باتوں میں تم نے فلسفے کو جانا ہے ؟
پھر تم بات کرتی ہو تم نے لاکھوں کو جانا ہے ۔
کبھی بھوکے بچوں کے گھروں میں جھانکا ہے ؟
کبھی سفید پوشی کے پیچھے راز جانا ہے ؟
کبھی ترستے لمحوں میں رشتوں کو جانا ہے ؟
پھر تم بات کرتی ہو تم نے لاکھوں کو جانا ہے ۔
کبھی خود میں چھپے اپنے راز کو جانا ہے ؟
کبھی قدرت کے کے کھلے پھولوں کے پتوں کو جانا ہے ؟
کبھی کانٹے میں چھپی درد کی آہ کو جانا ہے ؟
پھر تم بات کرتی ہو تم نے لاکھوں کو جانا ہے