آ جاۓ گر تلخی زباں پر
رہے پھر گفتکو میں چاشنی کہاں
بدل جاۓ تکرار میں اقرار انکار میں
رہے پھر بات میں گنجائش کہاں
بگڑی بات کو سنوار لے ابھی
وگرنہ ٹوٹ جاۓ آئنہ تو آرائش کہاں
گزر جاۓ جو ہر امتحاں سے
تو پھر اپنی آزمائش کہاں
روشن چراغ گر ہوجاۓ گل کہیں
اندھیرے میں پھر روشنی کہاں
بعد اترنے کے لحد میں
پھر فرار کی خواہش کہاں