پھر لہو رنگ بڑے خواب ہوئے
مرجھا ئےہوئے ننھے گلاب ہوئے
تھی کیسی ہوس اے قاتلوں تیری
کتنے گھروں پر وارد عذاب ہوئے
یہ کیسا سبق پڑھادیا تم نے
لہو کے قطروں سے تر کتاب ہوئے
تختہ خاک پہ بکھرے پھول سے بچے
آہ انسان انسانوں کے قصاب ہوئے
جب مجھ سے پوچھا یہ واقعہ صادق
تو جملے میرے سب لاجواب ہوئے