پھر لوٹ کر نہ آۓ بہاروں کے قافلے
ہم نے قدم قدم پہ جلاۓ تو تھے دیۓ
بارش کی گنگناتی پھواروں میں بھیگنے
اے کاش کویٔ ہو جو مرے ساتھ چل پڑے
دینا تھا اُس کا ساتھ مجھے ، فرض تھا مرا
وہ بھی تو سارے جگ سے لڑا تھا مرے لیۓ
دیکھا نہ ہم مڑُ کے اُسے پھر تمام عمر
بس ایک پل کو رُک کے لگا تھا جو سوچنے
پتھرا گئی تھی جِس کی نظر اِنتظار میں
کرتا بھی کیا وہ شخص بھلا لے کے آئینے
منزل کی جستجو نے نہ رُکنے دیا کہیں
ٹھکراۓ ہم نے راہ میں جِتنے مقام تھے
اے کاش پھر سے لوٹ کے آئیں خوشی کے دِن
جاگے تمہارے دِل میں محبت مرے لیۓ