پھول برسے کہیں شبنم کہیں گوہر برسے
اور اس دل کی طرف برسے تو پتھر برسے
کوئی بادل ہو تو تھم جائے مگر اشک میرے
ایک رفتار سے دن رات برابر برسے
برف کے پھولوں سے روشن ہوئی تاریک زمیں
رات کی شاخ سے جیسے مہ و اختر برسے
پیار کا گیت اندھیروں پہ اجالوں کی پھوار
اور نفرتوں کی صدا شیشے پہ پتھر برسے
بارشیں چھت پہ کھلی جگہوں پہ ہوتی ہیں مگر
غم وہ ساون ہے جو ان کمروں کے اندر برسے
کون کہتا ہے کہ رنگوں کے فر شتے اتریں
کچھ بھی برسے مگر اس بار تو گھر گھر برسے
ہم سے مجبور کا غصہ بھی عجب بادل ہے
اپنے ہی دل سے اٹھے ،اپنے ہی دل پر برسے