پھول چمکے کہیں تارے چمکے
پھول چمکے کہیں تارے چمکے
زخم کتنے ہی ہمارے چمکے
یاد آئی تیری یادوں کی دھنک
رنگ جتنے تھے وہ سارے چمکے
دُھول چمکی جو تیرے قدموں کی
لوگ سمجھے کہ ستارے چمکے
برق چمکی ہے نہیں تو شَایَد
اُس کے عارض کے شرارے چمکے
چاند چمکا جو تیرے چہرے کا
آسمانوں کے کنارے چمکے
ذکر جب اُس نے وفا کا چھیڑا
ہم سے کئی درد کے مارے چمکے
جب بھی چمکا وہ خیالوں میں وسیم
میری پلکوں پہ ستارے چمکے