پھوُلوں پہ شبنم کے ہیں لا مُتناہی سلسلے
Poet: قیصر مُختار By: قیصر مُختار, ہانگ کانگپھوُلوں پہ شبنم کے ہیں لا مُتناہی سلسلے
اُس زُلف ِ برہم کے ہیں لا مُتناہی سلسلے
انسانی مقدر کی جب سے کھِینچی گئی لکیر
انسانوں کے غم کے ہیں لا مُتناہی سلسلے
اپنے دم پہ جب سے ہم نے جینا آخر سیکھ لیا
رستوں کے زیرو بم کے ہیں لا مُتناہی سلسلے
رشتوں کی خاطر لاکھ جتن کرکے ہمنے دیکھ لیا
رشتوں کے جوروستم کے ہیں لامتُناہی سلسلے
روزگارِ زمانہ نے ہمیں کیا کیا گُر سکھلائے ہیں
لیَل و نِہار کے غم کے ہیں لا مُتناہی سلسلے
بچوں کی خاطرماؤں نےکس قدر دُکھ جھیلا ہے
ماؤں کے دیدہء نم کے ہیں لا مُتناہی سلسلے
دَم ہے تو ہمدم ہے دَم ہی سے ابنِ آدم ہے
اِس دم کےاِس آدم کے ہیں لا مُتناہی سلسلے
بٹ کے رہ گئی قوم ، ادیان اور فرقوں میں
اس نسل ِ آدم کے ہیں لا مُتناہی سلسلے
جہد میں ہے پنِہاں قیصر جوہَر نسلِ انساں کا
اور کوششِ پیہم کے ہیں لا مُتناہی سلسلے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے






