پہلو میں دل ہو اور دہن میں زباں نہ ہو
میں کیسے مان لوں کہ حقیقت بیاں نہ ہو
میرے سکوتِ لب پر بھی الزام آ گئے
میری طرح چمن میں کوئی بے زباں نہ ہو
سوزِ دل و گدازِ جگر، معتبر نہیں
جب تک غمِ حبیبِ غمِ دو جہاں نہ ہو
ہم نے اپنے خوں سے جلائی تھیں مشعلیں
ہم سے تو اے نگارِ سحر بدگماں نہ ہو
محسن ہمارے طرزِ تکلّم کی بات ہے
ہر شخص سوچتا ہے مری داستاں نہ ہو