پہچان کے نشان ہزاروں طرح کے ہیں
دنیا میں خاندان ہزاروں طرح کے ہیں
کس دوست کی وفا پہ کریں اعتبار ہم
ہیں جن کے درمیان ہزاروں طرح کے ہیں
اس معرکہ عشق میں ہو کون سرخرو
اس میں تو امتحان ہزاروں طرح کے ہیں
صرف ایک وہ نہیں ہے تو جس کا مکین ہے
ویسے یہاں مکان ہزاروں طرح کے ہیں
مانیں گے جب ملے گی ہمیں چھاؤں دہر کی
سنتا ہے سائبان ہزاروں طرح کے ہیں
پوچھا یہ اس نے رنگ ہیں کتنے، خلوص کے
میں نے کہا کہ جان ! ہزاروں طرح کے ہیں
وابستہ سب سے کوئی کہانی ضرور ہے
اس جسم پر نشان ہزاروں طرح کے ہیں
شاید وہ بے وفا ہے کہ مجبور دوستوں
دل میں ابھی گمان ہزاروں طرح کے ہیں
بولے حریمِ ناز سے احباب یک زبان
عارف پہ ہم کو مان ہزاروں طرح کے ہیں
عارف حسین عارف - اندھیرے رقص کرتے ہیں