ایک معصوم سی خواہش تھی
آسمان کو چھو لینا وہ چاہتی تھی
سپنے سہانے وہ دیکھا کر تی تھی
وقت کی لگامیں تھامنا چاہتی تھی
وہ پیاری معصوم سی ایک لڑکی
آج نا جانے کس منزل کی اور چل پڑی
پکارنا چاہوں بھی تو سن نہ پائے گی وہ
ایسے نگر وہ جا بسی
پیار سبھی سے کرتی تھی
ماں باپ کی آنکھوں کا تارا تھی
گود میں ایک بلی لئے
ہر پل پھرتی رہتی تھی
چھوٹے چھوٹے خواب سجا کے
دیس پیا کے جب سدھاری
پھول گلشن میں کھلے جب
زندگی اسے ہوگئی اور پیاری
کب سوچا تھا ایسا ہوجائے گا
ہرا بھرا گلشن خاک میں مل جائے گا
پیاری سی وہ لڑکی آگ میں جل مری
پھول دو گلشن کے ساتھ لے کر رب سے جا ملی
آج بھی یاد جب آتی ہے اس کی تب
دل میرا رونے لگتا ہے
ذہن کے گوشے میں کہیں جب
چھبی لہرائے اسکی تو
درد کی اتھا کہرائیوں میں من ڈولنے لگتا ہے
وہ پیاری سی لڑکی بہت یاد آتی ہے
بہت یاد آتی ہے ۔۔۔۔۔۔
(پیاری نادیہ اور اس کے بچوں کے نام جو اب اس دنیا میں نہیں )( اللہ اس کی مغفرت کرے آمین )