تیری یاد میں جانے کیا کیا لکھ دیتا ہوں
پیار بھری رات کو بھی شب غم لکھ دیتا ہوں
جب سے تیری صورت دیکھی عجب حالت ہے میری
صبح کو شام اور کبھی شام کو صبح لکھ دیتا ہوں
ہوائیں جب چلتی ہیں برسات چھم چھم برستی ہے
ایسی ہر سہانی شام میں تیرے ہی نام لکھ دیتا ہوں
جب چودھویں کا چاند نکلتا ہے اور گلاب کھلتا ہے
میں گلاب کی ہر کلی کو تیرا گال ہی لکھ دیتا ہوں
میں لاکھ جتن کر کے بھی تجھے کیسے بھلا پاؤں گا
میں بھول کر بھی تجھے یاد رکھنا لکھ دیتا ہوں
اپنے پیار کی میت کو جب کندھا دینے نکلتا ہوں
گھر کا راستہ بھول کر تیرا ہی کوچہ لکھ دیتا ہوں
لوگ پوچھتے ہیں میں کس کے فراق میں پاگل ہوں
آنکھیں بند کرتا ہوں اور تیری صورت لکھ دیتا ہوں