اے بادِ صباء اک عرض کروں
کچھ کام تیرا ذمے فرض کروں
ہو گزر تیرا جو درِ یار سے
چھونا اُسے تم رخسار سے
کانوں میں اُس کے بتانا یہ راز
رہتا ہے کوئی تیری یاد میں اُداس
تنہا ہے محفل میں جاتا نہیں
حالِ دل وہ کسی کو سناتا نہں
تیرا عشق اُس کو کھائے جا رہا ہے
چراغ اُسکی ہستی کا بجائے جا رہا ہے