پیماں شکن
Poet: Shabbir Rana By: Dr. Ghulam Shabbir Rana, Jhangاے کوفی پیماں شکن
تم کہاں گئے
سیلِ زماں کے ایک تھپیڑ ے میں بہہ گئے
تمہارے جبر کے ایوان
ریت کے گھروندے تھے
تیرے قہر کے وہ فرمان
سائیں سائیں کر تے جنگل کا قانون بنے
ساتا روہن جو تیرے گرد دُم ہلاتے پھرتے تھے
اجلاف اور ارزال سارے گلچھرے اڑایا کرتے تھے
سفہا کی تو پانچوں گھی میں تھیں
بہتی گنگا میں ہا تھ دھو کر
سب کے سب قارون بنے
شباہت شمر کے دیوانے تونے
یہ کیسا اندھیر کیا
مکر کا جال بچھا کر تو نے
مجبوروں کو پھانس لیا
پھر قہر و غیظ کے عالم میں
مجبوروں کو ڈھیر کیا
مظلوموں نے تیرے عقوبت خانے میں آکر
کبھی نہ سکھ کا سانس لیا
بیگار کیمپ اور قحبہ خانہ چلانے والے وحشی تو نے
فطرت کی تعزیروں کو بھی نہ سمجھا
ہلاکو اور چنگیز کے مقلد تو نے
بے ثمر رتیں کر دیں مجبوروں کی امیدوں کو غارت کر کے
آنگن بے چراغ کر ڈالے
ان کے خون پسینے کی محنت اکارت چلی گئی
گھر سے بلا کر لوٹنے والے اے فرومایہ بقال
مظلوموں کی آنکھوں میں جھونک کے دھول
اے عطائی فلسفی تو بن بیٹھا کحال
تیری رعونت کے باعث تو جینا ہوا محال
تو دھرتی کا بوجھ بنا ہے
تیری شقاوت آمیز ناانصافی سے
ہر چہرہ ہے مغموم
تیری بد اعمالیوں کی ہے
چاروں جا نب دھوم
دیپک راگ الاپ رہا تھا وقت کا نیرو
جلتا دیکھ کے روم
سب لوگ دہائی دیتے ہیں
اے رحیم وکر یم رب عظیم
اب سن بھی لے فریاد
اس فرعون کی کسی بھی صورت
نہ اور بڑھا معیاد
ختم بھی ہو بیداد
کاٹھ کی گھو ڑی پر ہو سوار
یہ متفنی جلاد
مجموعہ اضداد
اس کی پیماں شکنی کی اب تو
ہر سو مچی ہے دھوم
امیدیں موہوم
اس کے سب لچھن مذموم
اس پیر فرتوت کے بعد
ہر چہر ہ ہےشاداں
ہیںخوشیوں کے ساماں
کوئی نہیں مغموم
ہیں فرحاں سب معصوم
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں






