اے کوفی پیماں شکن
تم کہاں گئے
سیلِ زماں کے ایک تھپیڑ ے میں بہہ گئے
تمہارے جبر کے ایوان
ریت کے گھروندے تھے
تیرے قہر کے وہ فرمان
سائیں سائیں کر تے جنگل کا قانون بنے
ساتا روہن جو تیرے گرد دُم ہلاتے پھرتے تھے
اجلاف اور ارزال سارے گلچھرے اڑایا کرتے تھے
سفہا کی تو پانچوں گھی میں تھیں
بہتی گنگا میں ہا تھ دھو کر
سب کے سب قارون بنے
شباہت شمر کے دیوانے تونے
یہ کیسا اندھیر کیا
مکر کا جال بچھا کر تو نے
مجبوروں کو پھانس لیا
پھر قہر و غیظ کے عالم میں
مجبوروں کو ڈھیر کیا
مظلوموں نے تیرے عقوبت خانے میں آکر
کبھی نہ سکھ کا سانس لیا
بیگار کیمپ اور قحبہ خانہ چلانے والے وحشی تو نے
فطرت کی تعزیروں کو بھی نہ سمجھا
ہلاکو اور چنگیز کے مقلد تو نے
بے ثمر رتیں کر دیں مجبوروں کی امیدوں کو غارت کر کے
آنگن بے چراغ کر ڈالے
ان کے خون پسینے کی محنت اکارت چلی گئی
گھر سے بلا کر لوٹنے والے اے فرومایہ بقال
مظلوموں کی آنکھوں میں جھونک کے دھول
اے عطائی فلسفی تو بن بیٹھا کحال
تیری رعونت کے باعث تو جینا ہوا محال
تو دھرتی کا بوجھ بنا ہے
تیری شقاوت آمیز ناانصافی سے
ہر چہرہ ہے مغموم
تیری بد اعمالیوں کی ہے
چاروں جا نب دھوم
دیپک راگ الاپ رہا تھا وقت کا نیرو
جلتا دیکھ کے روم
سب لوگ دہائی دیتے ہیں
اے رحیم وکر یم رب عظیم
اب سن بھی لے فریاد
اس فرعون کی کسی بھی صورت
نہ اور بڑھا معیاد
ختم بھی ہو بیداد
کاٹھ کی گھو ڑی پر ہو سوار
یہ متفنی جلاد
مجموعہ اضداد
اس کی پیماں شکنی کی اب تو
ہر سو مچی ہے دھوم
امیدیں موہوم
اس کے سب لچھن مذموم
اس پیر فرتوت کے بعد
ہر چہر ہ ہےشاداں
ہیںخوشیوں کے ساماں
کوئی نہیں مغموم
ہیں فرحاں سب معصوم