چاند بےکار تو، لگتے ہیں ستارے یوں ہی
میں جدائی کا مخالف نہیں پیارے یوں ہی
دشت والے نے بلایا تو سبھی نے جانا
ورنہ مجھ کو تو سمجھتے تھے یہ سارے یوں ہی
ایک دوجے میں اگر ہم نے نہ لی دل چسپی
آنکھ سے جاتے رہیں گے یہ نظارے یوں ہی
جیسے کچھ نام لگاتار لیے ہیں میں نے
چاہتا ہوں کہ مجھے کوئی پکارے یوں ہی
بد دعا دینا نہیں ٹھیک مگر چاہتا ہوں
جس طرح میں نے گزاری، وہ گزارے یوں ہی