سنا سکتے نہیں لیکن سنانا چاہتے ہو تم
جو تیری ساتھ گزری ہے بتانا چاہتے ہو تم
وہ بیتی زندگی تیری وہ کھٹی سی وہ میٹی سی
بھلا سکتےنہیں لیکن بھلا نا چاہتے ہو تم
ستایا تم نے دنیا کو چلو چھوڑو مگر مر کر
وہاں جا کر فرشتوں کو ستانا چاہتے ہو تم
ترک کر دی نماز اپنی دعا کو بھول بیٹھے ہو
مگر یہ ہاتھ عادی ہیں اٹھانا چاہتے ہو تم
خدا سے ڈر بھی لگتا ہے اسی سے دوستی بھی ہیں
ذرا سوچو یہ کس کو آزمانا چاہتے ہو تم
بہت ضدی ہو تم اے ذیب اب ضد چھوڑ بھی ڈالو
جہاںحاجت نہیں تیری کیوں جا نا چاہتے ہو تم