چلو اب پھر سے چلتے ہیں
اور اِن سے اُن سے ملتے ہیں
کہ ہو آئیں اس باغ بھی
جہاں پر پھول کھلتے ہیں
ہوئی وہ بات پرانی ہے
کہ سب کی یہ کہانی ہے
کہ سوز و غم کس بات کا
یہ زندگی یہ دکھ فانی ہے
چلو کچھ کرتے ہیں نیا
نہ کوئی جو اب تک کر سکا
برائی ہم ہی روکیں گے
تو پھر کس بات کی حیا
وہ اک دلدل تھی جس میں
ہم غوطے لگاتے تھے
جتنا جتنا ہم چلتے
فقط دھنستے ہی جاتے تھے
مگر اب دَور ہے بدلا
کہ اپنے غیر ہیں سارے
اور غیر تو غیر ہی ٹھہرا
پھر کیوں ڈھونڈیں سہارے
سو گر چلتے ہو تو بولو
سلے لب اب تم کھولو
مجھے تو جانا ہی ہوگا
اپنی منزل تم خود بولو
میرے جذبات سچے ہیں
جنون بہت سا ہے باقی
جفا کبھی نہ کی میں نے
بات تو بس ہے وفا کی
کہ تم میں خیر لگتی ہے
تو تم کیوں کر رکتے ہو
جو لڑ سکتے ہو تم
تو جھک کر کیوں کر چلتے ہو
یہ وقت تو کڑا ہے
پر کوشش کا اجر بڑا ہے
بڑھائو بس ایک قدم تم
اللہ تھامنے کو کھڑا ہے
سنو کچھ ہلتے جلتے ہیں
کہ تھوڑی ہمت کرتے ہیں
سنو اے دلِ نایاب
چلو اب پھر سے چلتے ہیں