چلو کہ پیار کی باتوں کو چھوڑ دیں کل پر
مری رفیق ! غم زندگی کو سوچیں ذرا
چلو کہ سوچیں بیماروں و مفلسوں کے لیے
ملا نہیں ہے مقدر سے جن کو چین و قرار
بنی ہے زیست فقط اک عذاب جن کے لیے
ہر ایک سانس کڑا ہے حساب جن کے لیے
مری رفیق ! غم زندگی کو سوچیں ذرا
وہی اندھیرے جہالت کے آج بھی ہیں یہاں
ابھی تلک وہی فرسودہ نظریات کا دور
سماج میں ہیں وہی نفرتیں ، وہی تلخی
شعور اب بھی نہیں جاگا ، نہ آگہی ہی ملی
چلو کہ پیار کی باتوں کو چھوڑ دیں کل پر
مری رفیق ! غم زندگی کو سوچیں ذرا