بعد مدت کے کھلے بھاگ آج نہ کوئی سوگند دو
نہ پابند سلا سل کرو شاہ زنداں سے نکل جانے دو
دیوانے کے شہر میں سجی آج انجمن سخنور کی
نہ روکو بھری محفل میں آج داستان غم سنانے دو
آؤ تم بھی گھڑی دوگھڑی دشمن کے سنگ مل بیٹھو
پھر یہ ساعت آۓ نہ آۓ تم بھی بنا لو مجھے باتیں دو
شام غریباں بھی گزر جایئگی تم دوستی کا پیغام توجانےدو
دور ہوگی یوں قدورت بھی گر ہم مل بیٹھیں آج دیوانے دو
میری تاریک رہ میں کھڑے ہیں جل تھل کے سمندر
نہ باندھو اب کوئ بند شاہ راہ پر آج اے شہر والو
چلی ہے بارات ہرجائ کی شہر میں آج ہرطوفاں کو آنےدو
نہ ہو پھر کبھی دکھ کی بارش سو آج اشکوں کو بہ جانے دو