چودہ اگست اک دن ہے
جو شرق اجالتا ہے
افق میں لہو اچھالتا ہے
اس دن خوش بو اگتی ہے
نکہت نکھرتی ہے
بگڑی سنورتی ہے
جذبے لہو گاتے ہیں
ان حد صدمے سناتے ہیں
خواب غفلت چراتے ہیں
مایوسی کے دھبے مٹاتے ہیں
فردوس کی ہوا لاتے ہیں
چودہ اگست اک دن ہے
کر گزرنے کی یاد دلاتا ہے
برف لہو گرماتا ہے
شہیدوں کا یہ سندیسہ لاتا ہے
اٹھو جاگو صبح ہوئی ہے
صدیاں نہ جو کر سکیں
ہمارا لہو وہ کر گیا
اس زمین کی تم مانگ سنورو
خون پسینے سے اس کو نکھارو
آتی نسلوں تک یہ زندہ رہے
ان کے مقدر میں تابندہ رہے