چھوڑ جانے پہ پرندوں کی مُذمت کی ہو
تُم نے دیکھا ہے کبھی پیڑ نے، ہجرت کی ہو
جُھولتی شاخ سے چُپ چاپ جُدا ہونے پر
زرد پتوں نے ہواؤں سے شِکایت کی ہو
اب تو اتنا بھی نہیں یاد کہ کب آخری بار
دِل نے کُچھ ٹُوٹ کے چاہا، کوئی حسرت کی ہو
عُمر چھوٹی سی مگر شکل پہ جھُریاں اتنی
عین ممکن ہے کبھی ہم نے بھی مُحبت کی ہو
دِل شکستہ ہے کوئی ایسا ہُنرمند بتا
جِس نے ٹُوٹے ہُوئے شِیشوں کی مُرمت کی ہو
شب کے دامن وُہی نُور بھریں گے احمد
جِن چراغوں نے اندھیرے سے، بغاوت کی ہو