چھوڑ دی تیری دنیا تیری خوشی کے لیے
جی سکیں گے نہ اب ہم اور کسی کے لیے
تیرا ملنا اور بچھڑنا ایک خواب تھا
تیری چاہت تو تھی دل لگی کے لیے
میرے آنگن میں ہر سو اندھیرا رہا
چراغ ڈھونڈا بہت روشنی کے لیے
اپنی قسمت میں اشکوں کی سوغات تھی
ہم تو ترستے رہے ایک ہنسی کے لیے
تیری جدائی سے بڑھ کر اور کیا غم ہو گا
مسعود زخم کافی ہیں یہی زندگی کے لیے