چہرے سے نگاہوں کو ہٹاتا بھی نہیں ہے
یوں پیاس بڑھا کر وہ بجھاتا بھی نہیں ہے
انصاف کا طالب ہے مگر مطمئین نہیں
سو عدل کی زنجیر ہلاتا بھی نہیں ہے
ہمدردیوں کی بھیک گوارا نہیں کرتا
دکھ اس لیئے چہرے پہ سجاتا بھی نہیں ہے
پرچار محبت کی بہت کرتا ہے لیکن
دیوار وہ نفرت کی گراتا بھی نہیں ہے
اتنا انا پرست ہے اک بار روٹھ کر
خود بھی نہیں آتا وہ بلاتا بھی نہیں ہے