چہرے پہ گرد پاؤں میں سفر ہے کہ نہیں ہے
تو دیکھ میری منزل پہ نظر ہے کہ نہیں ہے
جا اپنے لیے ڈھونڈ لے کسی اہل اِے محال کو
نہ جانے میری قسمت میں گھر ہے کہ نہیں ہے
تیرے پاس ہے ابھی اور درد تو وہ بھی مجھے دو
نا پوچھ کہ مجھ میں اور صبر ہے کہ نہیں ہے
میری نیندیں تو مر چکی ہیں رات جگوں کے ہاتھ
تیرے خوابوں کو بھی کوئی ایسا ڈر ہے کہ نہیں ہے
یہ سوچ کے لے آیا ہوں میں جنگل سے کچھ جگنو
نہ جانے اب قسمت میں سحر ہے کہ نہیں ہے
تو دیکھ میرا شوق میری شکایتوں کو نہ دیکھ
پاؤں تلے تیرے گھر کی ڈگر ہے کہ نہیں ہے
مانگا ہے تجھے رب سے کہ ایک ضد سی ہے کب سے
دیکھوں تو میری دُعاؤں میں اثر ہے کہ نہیں ہی ہے