دکھاوئے کے سہاروں سے مجھے اب ڈر سا لگتا ہے
ریت کی دیواروں سے مجھے اب ڈر سا لگتا ہے
میں خود کو آئینے میں دیکھتا نہیں کیونکہ
وہرانی کے نظاروں سے مجھے اب ڈر سا لگتا ہے
کبھی جس آسماں کو تیرے سنگ دیکھا کرتا تھا
اسی کے چاند تاروں سے مجھے اب ڈر سا لگتا ہے
میں تیرے خطوں کو اب پڑھتا نہیں ہوں ہمدم
محبت کے مزاروں سے مجھے اب ڈر سا لگتا ہے
کہ جب سے دوست بن کے تم نے دشمنی کی
اب اپنےہی یاروں سے مجھے اب ڈر سا لگتا ہے
ملو کس سے کہاں جاو کے اب تنہا یہاں یاسر
سبھی ان رہگزاروں سے مجھے اب ڈر سا لگتا ہے