کئی بار اِس دل میں بہار آئی
کر گئی مگر ہر بار میری رُسوائی
زبان کُھلتے ہی تماشائےعشق بن گیا
کھا گئی مجھے میرے عشق کی سچائی
یہ صلہء محبت‘محبت کر کے مجھے ملا
پائی انمول نفرت ‘محبت کی کمائی
اُس نے آزاد اپنی حراست سے کر دیا
عمر بھر کی دے دی‘خود سے رہائی
چھوڑ دیا بیچ راہ تن تنہا اُس نے
بیچ بازار مجھے دے دی تنہائی
اب تو وہ ہر سُو دِکھنے لگا ہے
یہ بُرا اثر کر گئی مجھ پہ جُدائی
یوں بیگانہ پلک جھپکتے ہی ہو گیا
جیسے کبھی نہ تھی ہم سے شناسائی