کاش کہ میرے لفظوں میں وہ درد ُاتر آتا
جنہیں پڑھ کر تیری آنکھوں سے اشک نکل آتا
ُتوں سہراب ہیں تو سہراب سہی
چند پل کے لیے میرا دل تو بہل آتا
کانٹوں سی زندگی میں بہاروں کا تصور
کاش کہ میرا دل خوابوں سے نکل آتا
ڈوبتے سے پوچھوں کہ زندگی کیسے کہتے ہیں
میرے لیے موت کا ُحرف تیرے منہ سے یوہی نہ نکل آتا
کس طرح سے برسا تھا آج بادل مدہوش ہو کر
کاش کہ میری آنکھوں کی لالی کا رنگ تجھے نظر آ جاتا
آج جا ! لیکن تیرا آنا تو طے ہیں آج نہیں تو کل
کاش کہ تجھے بھی قدرت ُخدا کو سمجھنا آتا