کاغذ پر ہم نے زندگی لکھ دی
اشکوں سے سانچ کر کہانی لکھ دی
درد جب ہمھارا اَبھرا لفظوں پر
لوگوں نے کہا واہ کیا غزل لکھ دی
مسعود لکھ کچھ آج وقت کا تقاضا ہے
دل میں درد اے غم بھی آج تروتازہ ہے
گر پڑتے ہیں آنسو میرے کاغذ پر
قلم میں سیاہی کم اور درد زیادہ ہیں
جینے کی نئي ادا بھی اَس نے دی
خوش رہنیے کی دعا بھی اَس نے دی
دل میں تھوڑی سی جگہ بھی دی
لوگوں نے کہا واہ کیا غزل لکھ دی