تھے قفس میں تو یہ آرزو تھی ہمیں اڑ کے پہنچیں کبھی آشیاں دیکھ لیں آنکھ رونے لگی گلستاں دیکھ کر وہ فضا نہ رہی وہ سماں نہ رہے آؤ حرماں و غم ہی سے یاری کریں اب خوشی کا تصور ہے زاہد کہاں کاغزی پھول چن کے سجا لیں چمن،دل میں تھوڑا بھی خوف خزاں نہ رہے