آنگن میں جامن کا تھا اک پیڑ کہ جب ہم چھوٹے تھے
موسم میں ہم اس کے جامن شوق سے کھایا کرتے تھے
جامن کے اُس پیڑ پہ اک کالی کوئل بھی رہتی تھی
کالے کالے سے جامن مرغوب تھے شائد اس کو بھی
دیکھ کے ہم کو لیکن وہ گھبراتی تھی شرماتی تھی
اس کو دیکھنا چاہو تو وہ پتوں میں چُھپ جاتی تھی
لیکن صبح و شام وہ اپنا نغمہ "کُوک" سناتی تھی
کانوں میں رس گھولتی یہ آواز بہت ہی بھاتی تھی
بادِصبا میں وہ نغموں سے یوں کوملتا بکھراتی
بادِصبا کے خالق کے ہو جیسے گن گاتی جاتی
بادل گھر کر آتے تھے تو پاگل سی ہوجاتی تھی
جوش بھرے میٹھے نغمے سُندر آواز میں گاتی تھی
بارش میں ہم شور مچاتے چیختے اور چلاتے تھے
اور کیچڑ میں لت پت ہوجاتے تو ما ر بھی کھاتے تھے
لیکن اس ہنگام میں بھی وہ کوئل گاتی جاتی تھی
سب سے ڈرنے والی کیسے طاقت ور ہوجاتی تھی
پھر اک دن احساس ہو ا کہ اب گھر چھوٹا پڑتا ہے
کچھ بچوں کو صحن میں اپنا بستر ڈالنا پڑتا ہے
آنگن میں دو کمرے ڈلوانے کو جامن کاٹ دیا
اور اس کالی کوئل کا تو جیسے گلشن کاٹ دیا
اس دن اتنا رونا آیا جیسے اپنے چھوڑ گئے
جیسے اپنے چھوڑ گئے ، نازک سے من کو توڑ گئے
پھر میٹھی آواز بھی سنتا تھا تو کوئل یاد آتی
جامن کا وہ پیڑ بھی یاد آتا جو کوئل یاد آتی
گو کہ ہجر کے کچھ لمحے بھی صدیوں جتنے ہوتے ہیں
ناسمجھی کے دن کیا ماہ و سال بھی لمحے ہوتے ہیں
بیتی ایسے عمر کہ جیسے صحرا میں ساون بیتے
جیسے پو پھٹنے سے دھوپ نکلنے تک شبنم چمکے
لیکن کب سے کالی کوئل کی میں آس میں بیٹھا ہوں
کس کو خبر کہ کب سے اس میٹھی آواز کو ترسا ہوں