کیسے نئے ڈھنگ سے ظلم چھپایا گیا
اک قبر میں کئی لاشوں کو دفنایا گیا
فقط پوچھا تھا کہ زندگی کیا ہے۔۔؟
مجھےننگے پاوءں کانٹوں پہ چلایا گیا
چاند پہ زندگی کے نشاں ڈھونڈ رہا ہے
اُف خدا آدمی کو کتنا ستایا گیا
اُسے گلاب کی مہکتی کلیاں پسند ہیں
موسمِ خزاں آیا تو مجھے بتایا گیا
ظلمتوں کے خلاف کُچھ یوں احتجاج ہوا
ضمیرمرے سامنے مرا گھر جلایا گیا