یہ کس کی بددُعاؤں کا اثر ہے
کہ زیست ساری اپنی بے ثمر ہے
اس اُلجھی ڈور کو سُلجھاؤں کیسے
نا مانوس سی ہر اک ڈگر ہے
میں کیسے کانٹوں سے دامن بچاؤں
بہت پُرخار ہر یک رہ گزر ہے
تمام عمر چلے جستجو میں منزل کی
مگر اب رائیگاں عمر سفر ہے
ساتھ تھا اُس کا برنگ محفل
اب اپنا سایہ اپنا ہمسفر ہے