کبھی اندھیار چٹکی میں ، کبھی اُجیار چٹکی میں
کبھی انکار چٹکی میں ، کبھی اقرار چٹکی میں
بھلے مل جائے گا ہر چیز کا بازار چٹکی میں
نہیں بِکتا کبھی لیکن کوئی خوددار چٹکی میں
بہت تھے ولولے دل کے مگر اب سامنے ان کے
اُڑن چھو ہو گئی ہے طاقتِ گفتار چٹکی میں
عجب تقریر کی ہے رہنما نے امن پر یارو
نکل آئے ہیں چاقو تیر اور تلوار چٹکی میں
طریقہ ، قاعدہ ، قانون ہیں الفاظ اب ایسے
اُڑاتے ہیں جنہیں کچھ آج کے اوتار چٹکی میں
کبھی خاموش رہ کر کٹ رہے ریوڑ بھی بولیں گے
کبھی خاموش ہوں گے خوف کے دربار چٹکی میں
وہ جن کی عمر ساری کٹ گئی خوابوں کی جنت میں
حقیقت سے کہاں ہوں گے بھلا دوچار چٹکی میں
نتیجہ یہ بڑی گہری کسی سازش کا ہوتا ہے
نہیں ہلتے کسی گھر کے در و دیوار چٹکی میں
ڈرا دے گا تمہیں گہرائیوں کا ذکر بھی ان کی
جو دریا تیر کے ہم نے کئے ہیں پار چٹکی میں
پرندے اور تصور کے لئے سرحد نہیں ہوتی
کبھی اِس پار چٹکی میں ، کبھی اُس پار چٹکی میں
بس اتنا ہی کہا تھا شہر کا موسم نہیں اچھا
سزا کا ہو گیا سچ کہہ کے دِوِج حقدار چٹکی میں