کبھی جو نکہت زلف نگار آئی ہے
فضائے مردۂ دل میں بہار آئی ہے
ضرور تیری گلی سے گزر ہوا ہوگا
کہ آج باد صبا بے قرار آئی ہے
کوئی دماغ تصور بھی جن کا کر نہ سکے
یہ جان زار وہ لمحے گزار آئی ہے
تجھے کچھ اس کی خبر بھی ہے بھولنے والے
کسی کو یاد تیری بار بار آئی ہے
خدا گواہ کہ ان کے فراق میں کوثرؔ
جو سانس آئی ہے وہ سوگوار آئی ہے