کبھی شوخ ہوا بہت اپنوں کی طرح
کبھی پل میں اجنبی بنا دیا
کبھی خط پڑھ کے چوما بار بار
کبھی پھاڑ کر ہوا میں اچھال دیا
کبھی چمکے چاند سا روشن کہا
کبھی دیئے کی مانند بجھا دیا
کبھی ہاتھ تھام کے چل پڑا
کبھی صاف دامن بچا لیا
کبھی اوڑھ کے سو گئے آنچل میرا
کبھی خاک میں ہنس کر ملا دیا
کبھی سجایا دلھن کی طرح
کبھی تن پہ سفید کفن پہنا دیا
کبھی اڑایا آسماں کی بلندیوں میں
کبھی پر کاٹ کر زمیں پہ گرا دیا
وہ کیسا عجیب شخص تھا جس نے
تسکین انا کی خاطر مجھے بھلا دیا