کبھی ظلمتوں میں سفر کیا کبھی روشنی میں ٹھہر گئے
غم دوست تری تلاش میں کبھی جی اٹھے کبھی مر گئے
اے ہجوم شہر مسافراں، تجھے کیا خبر میری داستاں
کہ جو لوگ میرے قدم چلے وہ مثال گرد سفر گئے
وہ جو لوگ میرے قریب تھے انہیں فاصلوں نے بدل دیا
جنہیں دوریوں کا گمان تھا میری چشم خوش میں اتر گئے
کبھی یوں ہوا ترے درد نے مجھے دشت جاں سے نجات دی
کبھی یوں ہوا کہ تیرے کرم مجھے ملنے آئے تو ڈر گئے
کبھی دیکھنا میرے ہمسفر جو دھنک ہماری نظر میں ہے
یہ تمہارے نام کے خواب تھے جو برنگ خواب سحر گئے
غم زندگی، غم بندگی تجھے کیا خبر غم خواجگی
جنہیں دست ناز پہ ناز تھا وہی پروری سے مکر گئے
تیرے حوصلے کی زمین پر ابھی کٹ رہی ہے نشاط غم
دل بےخبر ترے شوق میں مرے ہاتھ زخموں سے بھر گئے
انہیں کوئی مشت یقین دے جو اتر کہ زینہ شام سے
جو رکے تو صبح امید پر جو چلے تو جاں سے گزر گئے