کبھی غُبار دل کے لفظوں کی صورت نکالے جاتے ہیں
کبھی آنسوں اشعارکی صورت میں نکالے جاتے ہیں
کبھی زخم خوشیوں کی صورت میں چُھپالئے جاتے ہیں
کبھی زندگی کے شکنجهے دل میں دبا لئے جاتے ہیں
میری بھی مہکے گی زندگی کبھی روشن آفتاب کی طرح
خواب ہونٹوں پہ سجا کے اشکوں سے گرا دیے جاتے ہیں
عشق کا سمندر جب گرا نہیں سکتا سنگ دِل کی دیواریں
پھر اپنے ہی لہو سے صاحب چراغ بھوجا دیے جاتے ہیں
ہوتا ہے شہر میں شور و گُل ہائے کوئی جان سے گیا
جب کسی وارکرفت میں درد کے امبار لگادیے جاتے ہیں
فقط ڈھیر ہی راہ جاتا کسی جای منزوی میں نفیس
جب زندگی پہ لگے اشتباه داستان مٹا دیے جاتے ہیں